Faraz Faizi

Add To collaction

30-Jun-2022-تحریری مقابلہ(بچپن) بچپن مستقبل کا آئینہ ہے


عام طور سے جب بچپن کا ذکر آتا ہے تو ہم میں سے ہر کسی کے ذہن و خیال میں اپنے ایام طفلی کا زمانہ یاد آتا ہے پھر ایک کے بعد ایک یادگار پلوں کے نقوش مانو آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔ بچپن کی معصومیت، نادانیاں، شرارتیں، امی جان کی لوریاں، دادی جان کی پریوں کی کہانیاں، اچھے برے دوستوں کی یاریاں ، جان سے پیاری ہمجولیاں ،مٹی کے گھروندے، باغوں کے جھولے، ٹھیلوں پہ سجے رنگ برنگ کے برف کے گولے اور  بھی بہت کچھ بڑے ہی حسرت و محبت سے یاد کئے جاتے ہیں۔
یہ تو سچ ہے کہ بچپن کبھی بھلایا نہیں جاتا، لیکن ذرا غور کریں کہ اپنے بچپن کو صرف اسی انداز سے یاد کیا جانا چاہئے ؟ کیا ہمارے بچپن کا رول ہماری زندگی میں اتنا ہی ہے؟ اگر ہم یہی سوچ رکھتے ہیں تو پھر اپنی اولاد کا بچپن ہم باغ و بہار کے جھونکوں اور قصے کہانیوں کے ذریعے تو سوارنے سے رہے۔

جناب عالی! بچپن تو مستقبل کا آئنہ ہوتا ہے، بچوں کی شخصیت پردازی کا پیمانہ ہوتا ہے، یہ بچپن ہی تو ہے جو طئے کرتا ہے کہ آنے والا کل روشنی کا گہوارا ہوگا یا تاریکی کا کھنڈر، بچپن ہی ایک ایسی کھیتی ہے جس میں جیسی تربیت کی بیج بوئی جائے پوری زندگی ویسی ہی فصل کاٹی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ والدین جنہوں نے اپنی اولاد کا بچپن مغرب کی گھناونی تہذیب کی کالی گھاٹی میں جھونک رکھاہے اور ان کی اخلاقی تربیت کے بجائے یہ کہہ کر کہ بچہ ابھی چھوٹا" ہے، آزادی دی ہے! بڑھاپے کا سہارا کھویا اور بچیوں کی بے پردگی کی عادت کے بدلے عفت حوا کو پامال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

مذہب اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے والدین کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کیا اور بتلا یا کہ والدین کی جانب سے اولاد کیلئے حسن اخلاق کی دولت اور اچھی تربیت سے بڑھ کر کو ئی تحفہ نہیں۔پھر بچوں کا بچپن آگے چل کر ایک صالح معاشرے میں بدل جائے اس کے لیئے سات سال کی عمر سے ہی نماز پڑھوانے کا حکم جاری کیا۔ماں کی گود کو "اقرء" کی سب سے پہلی درسگاہ بتایا، "خیرکم من تعلم القرآن" کے ذریعے حامل کلام الہی بننے کا موقع فراہم کیا،
 .  .  .  الغرض مذہب اسلام نے اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے والدین کو اپنے بچوں کا بچپن نکھار کر ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کا کامل حق دیا پھر ہم پر اس کی پاسداری کرنے کا ذمہ عائد ہوتا ہے۔
ظاہر ہے جب ماں باپ بچپنے میں ہی بچوں کو حدیث سنائیں گے کہ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔( ابن عساکر ، ذکر من اسمہ الحسین ، حرف الجیم فی آباء من اسمہ الحسین ، الحسین بن جعفر بن محمد ۔۔۔ الخ ، ۱۴ / ۴۶) یعنی جیسے لوگوں  کے پاس آدمی کی نشست وبَرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں ۔تو وہ بڑے ہوکر لامحالا بری سنگت سے محفوظ رہیں گے۔

جب بچپنے میں ہی یوں تربیت کی جائے گی کہ معلم کائنات نے فرمایا:  ’’بڑوں  کے پاس بیٹھا کرو، علما ء سے باتیں  پوچھا کرو اور حکمت والوں  سے میل جول رکھو۔( معجم الکبیر) تو بڑے ہوکر وہ علم و حکمت کے سر چشمے اور دین و ملت کے داعی ہوں گے۔جب بچوں کو بچپنے میں ہی یہ بتایا جائے گا کہ تمارے کا فرمان " ماں باپ کو اُف تک نہ کہو" تو ایسے بچے آگے چل کر والدین کیلئے محبت کا بازو پھیلائیں، اور ان کی خدمت کرکے اللہ اور اسکے رسولﷺ  کو راضی کریں گے۔
القصہ مختصر ہر خیر کی چیز یا شر کی چھوٹ جو انہیں بچپن میں دی جائے گی اس نتیجہ وہ دنیا میں ضرور ملاحظہ کریں گے، آخرت کا معاملہ تو ویسے ہی طئے شدہ ہے۔

آخری بات صاحبو! بچپن مستقبل کا آئینہ ہے ہمیں اسے میلا ہونے سے بچانا ہے۔

ازقلم: فرازفیضی کشن گنج بہار

   6
5 Comments

Sushi saksena

02-Jul-2022 01:50 PM

Good

Reply

Amir

01-Jul-2022 05:42 PM

very nice

Reply

Arshik

01-Jul-2022 07:59 AM

Bahut khoob👌👌🌷

Reply